**کراچی تا کشمیر ۔۔۔۔۔۔۔ غلیل اور دلیل**

**کراچی تا کشمیر ۔۔۔۔۔غلیل اور دلیل**
*********************
آج پانچ فروری ہے آج پورا ملک یوم یکجہتی کشمیر منا رہا ہے۔ آج برہان وانی سے لیکر درجنوں کشمیری شہداء کی تصاویر میرے میڈیا کے ذریعے مجھ سمیت میری قوم کی نظروں سے گذر رہی ہیں۔ دکھ بھی ہے اور دعا بھی کہ رب اللعالمین کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دے اور جو وہ چاہتے ہیں اللہ پاک اس مقصد میں انہیں کامیابی عطا فرمائے۔ برہان وانی کی سوانح پر نظر ڈالی تو پتہ چلا وہ حزب المجاہدین کے ونگ کمانڈر کی حیثیت سے سات سال مسلسل مسلحہ جدوجہد کرتے ہوئے شہید کر دیئے گئے۔ اچانک مجھے دور جدید کے معتبر فلسفی جناب پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف صاحب یاد آئے ان کی پروفائل ملاحظہ فرمائیں :
‏ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے 13 سال کی عمر میں میٹرک کیا اور 18 سال کی عمر میں آرٹس فیکلٹی میں پہلے اسٹوڈنٹ تھے جنہوں نے کراچی یونیورسٹی کی تمام فیکلٹیز کو ٹاپ کیا اور اسکے بعد برطانیہ میں ریڈنگ یونیورسٹی سے فل اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی کی
‏1973 میں حسن ظفر عارف کراچی یونیورسٹی کے فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر آئے اور جمیعت کی غنڈہ گردیوں اور کراچی یونیورسٹی کی رائٹ ونگ لابی کا مقابلہ کیا، پروگریسو اسٹوڈنٹ فرنٹ کو منظم کیا جو بعد میں نیشنلسٹ اور ترقی پسند طلبہ کا جمیعت کیخلاف اتحاد یونائٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ بنا ‏اسی دوران ڈاکٹر صاحب فل برائٹ اسکالر شپ پر پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ کیلئے ہارورڈ یونیورسٹی چلے گئے جہاں انہوں نے نامور فلسفی Willard Van Orman Quine کیساتھ کام کیا، جو برٹرینڈ رسل کے بعد بڑا نام سمجھا جاتا تھا۔ Quine papers میں ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی شراکت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
‏ڈاکٹر صاحب کی ہارورڈ سے کراچی یونیورسٹی واپسی پر جمیعت کی غنڈہ گردی مزید مضبوط ہو چکی تھی جس پر ڈاکٹر صاحب نے ترقی پسند اور نیشنلسٹ طلبہ بشمول الطاف حسین کو جمیعت کیخلاف منظم کرنے میں کردار ادا کیا۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
‏ضیاء دور میں بائیں بازو کے نظریات کیوجہ سے ڈاکٹر صاحب کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرجنرل جہانداد خان نے شوکاز نوٹس بھیجا، ڈاکٹر صاحب نے جواب میں مارشل لاء دور کے مظالم کی تفصیلات بھیج دیں، جسکی وجہ سے انہیں کراچی یونیورسٹی سے اٹھا کر جیل بھیج دیا گیا۔
‏ضیاء دور میں دو سال جیل میں گزارنے کے دوران ڈاکٹر صاحب نے کسی بھی قسم کی رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور مغرب کے انسانی حقوق کے ایکٹوسٹس اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کی مہم کے دباؤ پر انہیں رہائی ملی۔ ضیاء آمریت کیخلاف مزاحمت میں ایم آر ڈی میں بھی ڈاکٹر صاحب نےبھرپور حصہ لیا۔
‏ڈاکٹر حسن ظفر عارف پیپلز پارٹی کا بھی حصہ رہے اور بینظیر کی واپسی کیلئے جدوجہد میں کردار ادا کیا لیکن بعد میں قیادت کے پارٹی منشور سے انحراف کیوجہ سے پاپولر سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور نظریاتی میدان میں کراچی سٹڈی سرکل اور تصنیف و تالیف اور تراجم میں مصروف ہو گئے۔ درجن بھر کتابوں کے مصنف، مترجم اور مولف ہیں۔
پروفائل سے اک بات منکشف ہوئی کہ سر نے اگر پانچ سال کی عمر میں اسکول میں داخلے کے وقت جب قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا تو قلم سے انکا رشتہ تا وقت شہادت قائم رہا۔ جس کا دورانیہ 67 سال سے زیادہ بنتا ہے۔ کراچی کے اس عظیم مینارہء علم کو بڑی ہی بیدردی سے قتل کر دینے والے سفاک درندوں کا کشمیریوں کی حریت پسندانہ جدوجہد کی حمایت میں 5 فروری کو یوم یکجہتیء کشمیر کے طور منانا اک مضحکہ خیز نمائشی ڈرامہ سامحسوس ہوتا ہے۔ کہ جس ملک کے باسی اپنے عظیم اساتذہ و فلاسفررز کے سفاکانہ قتل پر چپ ہوں وہ کشمیری جدوجہد کی حمایت کریں، یہ تو منافقت ہے اس رویئے پر کون یقین کرے گا جناب۔ “غلیل” کی حمایت تبھی اچھی لگتی ہے جب آپ “دلیل” کے ساتھ کھڑے لوگوں کی بات سنیں ناکہ احسان اللہ احسان یا عزیر بلوچ کی۔
اور آخر میں فرمان قائد دہراتا چلوں کہ,
“کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے”
#یوم_یکجہتیء_کشمیر

ماں تو بھی غدار ہے ہم بھی غدار ہیں

**ماں تو بھی غدار ہے، ہم بھی غدار ہیں**
****************************
از : جاوید بشیر خانزادہ
محترمہ فاطمہ جناح 31جولائی 1893 میں کراچی میں پیدا ہوئیں، بچپن میں ہی ماں باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں، بڑے بھائی قائد اعظم محمد علی نے فاطمہ جناح کو ابتدائی تعلیم کے لیے ہائی اسکول کھنڈالہ میں داخل کرا دیا۔
سن 1910 میں انہوں نے میٹرک اور 1913 میں سینئر کیمرج کا امتحان پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا۔سن 1922 میں ڈینٹیسٹ کی تعلیم مکمل کر لی اور اگلے ہی سال 1923 میں بمبئی میں ڈینٹل کلینک کھول کر پریکٹس شروع کردی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گھریلو اور سیاسی زندگی میں قائد اعظم محمد علی کا ساتھ دینا شروع کردیا ۔
قائداعظم کا ساتھ دیتے ہوئے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کا ساتھ دیا اور انہی کی بدولت برصغیر کے گلی کوچوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی تحریک میں سرگرم ہوئیں ۔
سن 7 اگست 1947 کو محترمہ فاطمہ جناح 56 سال کے بعد دہلی کو الوداع کہہ کر کراچی منتقل ہو گئیں۔25دسمبر1955کو محترمہ فاطمہ جناح نے “خاتون پاکستان” کے نام سے کراچی میں اسکول کھولا اور قائد اعظم نے فنڈ سے ایک لاکھ روپیہ عطیہ دیا ،اس اسکول کے لئے حکومت کی جانب سے تقریباً 13 ایکڑ زمین دی گئی پھر 1962 میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دیا گیا۔
قیام پاکستان کے لیے انتھک کوششوں پر قوم نے انہیں “مادر ملت” کا خطاب دیا اور ریاستی خدائوں نے اک ظالم سفاک مطلق الانان ایوب خان کو للکارنے پر غدار وطن۔ ان کی قوم جسے بابائے مہاجر کہے وہ زمین کے جھوٹے خدائوں کو للکارنے کی پاداش میں راء کا ایجنٹ کہلائے۔
9جولائی 1967 کو 76سال کی عمر میں ایک عظیم بھائی کی عظیم بہن اپنے جسم و روح پر لگے زخم نہ سہار سکیں اور انتقال کر گئیں مگر ریاستی خدا ہیں کہ نہ جانے کس خوف میں مبتلا ہیں مادر ملت کو غدار قرار دینے کے بعد سے آج تک ان کی پوری مہاجر قوم کو بھی غدار وطن قرار دے چکی ہے۔ متروکہ املاک پر قبضہ ، کوٹہ سسٹم کے ذریعے چالیس سال سے معاشی نسل کشی ، گرفتاریاں ، گمشدگیاں ماورائے عدالت قتل ، بستیوں کی بستیاں نسل کشی کا شکار ، مردم شماری میں آدھی آبادی کی طبعی نسل کشی ، حلقہ بندیوں میں سیاسی نسل کشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کیا کہیں ماں ! تیرے جسم پر لگے زخم تو ہماری طرح شاید بھر گئے ہوں۔ تیری روح پر لگے زخم نہ تجھے چین لینے دیتے ہوں گے نہ ہماری روح پر لگے زخم ہمیں چین لینے دیتے ہیں۔
ماں ! ہم تجھ سے شرمندہ سے مہاجر ، تیری اپنی قوم کے بچے، تیرے جنم دن پر تجھے یاد کرتے ہیں بہت ہی یاد کرتے ہیں

ریگِ دیروز
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا!
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا!
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رہیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں!
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو
ایک، بس ایک، صدا گونجتی ہے
شبِ آلام کی “یا ہو ! یا ہو !”
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا، سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے!ٍ

#ہم_جو_تاریک_راہوں_میں_مارے_گئے
(تحریر : جاوید بشیر خانزادہ)

فلسفہ اور نظریہ

“فلسفہ اور نظریہ”
————–
از : جاوید بشیر خانزادہ
فلسفہء “حقیقت پسندی اور عملیت پسندی” کا تقاضہ ہے کہ حقیقت کو تسلیم کرو اور اسپر اسکی روح کے مطابق من و عن عمل بھی کرو ۔ قومی مسائل کے حل کے نام پر اگر قوم کے نمائندے اپنے قومی نظریئے، یعنی :
“اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء کے لئے مسلسل جدوجہد”
پر عمل پیرا ہونے کے بجائے۔ غاصبوں سے ہی قومی مفادات کا سودا کرلیں اور قوم کو باور کرائیں کہ یہ مصلحت کا تقاضہ ہے۔
تو قوم جان لے !
کہ قومی تحریکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی مصلحت صرف بے غیرت لوگ ہی اپنا سکتے ہیں قومی نمائندے نہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں
کہ ٹیپو سلطان ہو یا سراج الدولہ غاصبوں سے ٹکرائے اور قومی تاریخ میں امر ہوگئے۔ جبکہ ان کے نمائندے میر جعفر اور میر صادق غاصب فوجوں سے ساز باز کرکے خود ساختہ مصلحت پسند بنے تو قومی تاریخ میں غدار کہلائے یہاں تک کہ
“اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں” کے لئے عبرت کا نشان بن گئے ۔
یاد رہے !
“قاتل سے پناہ مانگو گے ، تب بھی مرو گے ۔ اس سے اماں نہیں مانگو گے تب بھی مرو گے ۔ لیکن قاتل تمہیں پناہ دے کر جب مارے گا تو تمہیں رسوا کر دے گا اور اگر تم ، اس کے مقابل آ کر مرو گے تو تمہارا خون اسے رسوا کر دے گا۔”

پیاس کہتی ہے چلو ! ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
اپنے کعبے کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا ۔

#Philosophy #RealismAndPracticalis #Doctrine #LiveAndLetLive #AltafHussain #Mohajir #MQM #Pakistan #Census_2017

انیس جون انیس سو بیانوے ۔۔۔۔ بنام حب وطن

**انیس جون انیس سو بیانوے ۔۔۔۔۔ بنام حب وطن**
*****************
1947 میں بیس لاکھ مہاجر پاکستان بنانے میں کٹ گئے۔
1971 میں سات لاکھ مہاجر اپنے پاکستان کو بچانے کے لئے کٹ گئے۔
1992 سے لیکر 2017 تک 22000 مہاجر پاکستان کو جناح کا پاکستان بنانے کے لئے کٹ گئے۔
بابائے قوم قائد اعظم سے لیکر بابائے مہاجر بانی و قائد تحریک سے وفا کی تاریخ ، مہاجر قوم نے اپنے لہو سے رقم کی ہے کہ دنیا کی معلومہ تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
دنیا کے مورخو !
دنیائے سیاست میں ہے کوئی ایسی قوم ، جو ملک کے قیام سے لیکر اس کے استحکام تک کے اپنے مقدس جرم کا خراج اپنے 2722000 جوانوں کے خون سے ادا کرے ۔ نہیں یہ امتیاز صرف اور صرف حریت پسند بانیان پاکستان کی اولاد مہاجروں اور انکے واحد اور متفقہ قائد کو حاصل ہے۔
وفا پرستی مہاجروں کی سرشت میں ہے۔
فرد ہو یا قوم اپنی عادات میں تو تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن سرشت تو اللہ کی ودیعت ہے اس میں کیسے تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟
زمین کے خدائو!
تم اپنی طاقت کے زعم میں اپنے ظلم وجبر حرص و لالچ سے کوئ میر جعفر، کوئ میر صادق، کوئ میر آفاق و عامر، کوئ میر کمالو و انیس ، کوئ میر ستار و اظہار جیسے پیداگیر و بے ضمیر تو پیدا کرسکتے ہو لیکن کوئ ٹیپو سلطان کوئ سراج الدولہ ، کوئ قائد اعظم یا کوئی قائد تحریک، جیسے حریت پسند پیدا نہیں کرسکتے۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں آپ جبر کا ہر حربہ آزما کے دیکھ چکے۔ جب تک ایک مہاجر بھی زندہ ہے ۔ نہ ہی قائد تبدیل ہوسکتا ہے نہ ہی نظریہ تبدیل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تحریک ۔
تبدیل اگر کرنا ہے تو جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل حمید گل جیسی گندی سوچوں کو تبدیل کرو۔ بقول انکے
“جب کئی مسلم لیگ بن سکتی ہیں کئی پی پی بن سکتی ہیں تو کئی ایم کیو ایم کیوں نہیں؟”
آپ اپنے تئیں مہاجر قائد کو خریدنے کی بہت ہی غلیظ کوششیں کرچکے۔ انکے بھائی اور بھتیجے سمیت 22000 کارکنان کو شہید کرکے انکے نظریئے کو ختم کرنے کی بڑی سفاکانہ کاروائیاں کرچکے۔ انکے سینیٹرز، ایم این ایز ، ایم پی ایز، میئر چیئرمین یہاں تک کونسلرز کو یرغمال بناکر انکی تحریک کو تقسیم کرنے کی اپنی تیس سالہ شدید خواہش کی تکمیل کے لئے آپ خود ذلالت کی تہہ تک کر گئے ۔ اپنی عسکریت کے گھمنڈ میں مہاجروں کے خون سے ہولی کھیلی انکے آفسز کو تہہ و بالا کیا انکے گھروں کو تالہ لگایا کسی کو لاپتہ، کسی کو زندہ درگور، کسی کو عقوبت خانوں میں، کسی کو دربدر کسی کو گھر بدر کوئ نوکریوں سے فارغ کوئ روزگار سے بے دخل ۔ الحفیظ و الآماں۔
پوچھا کیوں کر رہے ہو بھائی ! یہ آپکی ڈیوٹی نہیں ہے۔ آپ کا کام قانون کا نفاذ ہے۔ آپ خود غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کیوں ہو رہے ہو۔ ؟؟؟
بولے یہی میثاق جمہوریت ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس لندن میں پنجابیوں کے واحد متفقہ لیڈر نواز شریف کی زیر صدارت ہوئ تھی اس میں یہی طے ہوا تھا۔
“ایم کیو ایم سے کوئ بات نہیں کرے گا ۔ مہاجروں کو دیوار سے لگائو۔ ان سے جینے کا حق چھین لو۔ انکی قیادت اور پوری قوم کو غدار کہ کر گالیاں دو۔ انکی نسل کشی کرو، اگر کوئی اس ظلم پر آواز اٹھائے تو اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردو۔”
میں اس سیاہ کو سفید نہیں کہ سکتا۔
کیونکہ بے جا طاقت کمزور طبقات کے استحصال کا بنیادی سبب ہے۔
میرا یقین ہے نا طاقت ابدی شے ہے نا کمزوری قسمت کا لکھا ہے۔
اگر میرے وطن میں استحکام کو دائم رکھنا چاہتے ہو تو طاقت، اقتدار و اختیار کی منصفانہ تقسیم لازم ہے۔ اسکے لئے اس میں مزید آزاد و خود مختار انتظامی یونٹ بنانا ہوں گے۔
اسی میں ملک کی بھلائی ہے اور استحکام بھی۔ یہی مہاجروں کے درد کا درماں ہے اور انکے قائد کا پہلا اور آخری مطالبہ بھی۔
اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم اللہ کے شکر گزار بندے اپنے رب کی عدالت میں فیصلہ رکھتے ہیں کہ جہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں 👇

مطمئن ہوں کہ یاد رکھے گی
جب اس شہر کی تاریخ ، وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار بھی مجھے سوچیں گے
وسعت دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہیں گلیوں کی ہوا لکھے گی
#BlackDay19June1992

آج رہنے دو غریبوں کے لہو کا سودا

😢**آج رہنے دو غریبوں کے لہو کا سودا**😢
*************
ماہ رمضان پر ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنے ایک  شہید دوست کے گھر جانا ہوا مگر آج کچھ زیادہ ہی “اہتمام سے گیا” ۔ یہ ایک انتہائی خود دار اور میرے لئے قابل فخر شہید کی فیملی ہے۔ ہر سال جاتا لیکن بچوں کی عیدی کے علاوہ اماں اور بھابھی باقی تمام سامان یہ کہ کر واپس کر دیتیں کہ اللہ کا شکر ہے۔ یہ سامان فلاں شہید کی فیملی کو اپنے ہاتھ سے دے دیں۔ بھابھی اور بیٹی اک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ اور شہید کے اکلوتے چھوٹے بھائ کے ایم سی میں۔ تو میں بھی اماں کو سلام کرکے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر مطمئن ہوکر واپس آجاتا تھا۔ لیکن اس دفعہ خلاف توقع نا صرف بچوں کی عیدی بھی بھابھی نے خود وصول کی بلکہ وہ سارا سامان بھی جو میں اپنے ہمراہ لے گیا تھا وہ بھی میرے ہاتھ سے لیکر اماں کے سامنے رکھ دیا۔ گھر پر نظر ڈالی تو حیران رہ گیا کہ بھرا بھرایا گھر کسی بھی ضروری سامان سے بالکل خالی ہوچکا تھا۔ میں اماں کے پاس بیٹھا ہی تھا تو اماں نے مجھے شرمندگی سے دیکھتے ہوئے کہا کہ بیٹا ! چھوٹے بیٹے کو بھی پچھلے سال وہ لے گئے۔ گھر بار بیچ کر اسے بازیاب تو کروا کر جیل کر والیا ہے مگر اب کورٹ کچہری کے چکر۔ میں نے شکوہ کیا کہ آپ نے مجھے فون کیوں نہیں کیا ؟ اماں نے کہا وہ جو ہمارے تینوں میئر ہیں نا انکے بندے منے کو کہہ رہے ہیں کہ تم اپنی وفاداری تبدیل کرلو۔ لیکن اس نے کہا کہ وفا ہی تو میرے خاندان کی شناخت ہے اگر بے وفائی کرنی ہوتی تو 1995 میں میرے بڑے بھائی نہ شہید ہوتے ۔ وفا تو ہمارے لہو میں شامل ہے اس لئے میں اپنے ہی لہو کا سودا نہیں کر سکتا۔ پھر کیا تھا منے کی کے ایم سی کی جاب ختم، بچیوں کو بھی فیکٹری سے جواب مل گیا ہے کہ ہم پر “اوپر” سے پریشر ہے۔ “بھائ” کو صورتحال بتائی ہے انہوں نے بہت ہمت بڑھائی ہے۔ تمہارا پتہ نہیں تھا کہیں تم نے بھی اپنے شہید دوستوں کا لہو تو نہیں چاٹ لیا۔ چند روزہ دنیاوی آسائشوں کی خاطر بہت نیچے گر گئے ہیں لوگ بیٹا ! میں کہاں جائوں ؟ کس سے فریاد کروں ؟ ایک بیٹا کھو چکی دوسرے بیٹے کی زندگی کے لئے سب کچھ لٹا چکی۔ لیکن پھر بھی دل مطمئن ہے کہ اہل محلہ بہت اچھے ہیں۔ آپ چکر لگاتے رہنا بیٹے۔ میں انتہائی بوجھل دل کے ساتھ ابھی اٹھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک پر چونک گیا۔ اماں دروازے پر گئیں تو دو خواتین اور ایک انیس بیس سال کا بچہ سلام کرتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئے۔ وہ بچہ باہر سے چار تھیلے اٹھا اٹھا کر اندر رکھ رہا تھا۔ مہمان خواتین نے مجھے پہچان لیا اور ایک بھاری سا لفافہ میرے ہاتھ میں رکھ دیا کہ یہ بھائ کی طرف سے آپ اماں کو دے دیں۔ میں اپنی باجیوں کا حکم بجا لایا ۔ لیکن با چشم تر بھاری قدموں سے اپنے یار کے گھر سے نکل آیا ۔ واقعی وفاداری ، پاکدامن مائیں اپنی اولادوں کو اپنے دودھ میں پلاتی ہیں۔ میرا کامل یقین ہے جب اچھا وقت نہیں رہا تو برا بھی نہیں رہے گا۔ منا بھی جیل سے آئ ہی جائیں گے۔ شہید کی بوڑھی ماں بیوہ اور بچوں کا رازق بھی میرا رب ہے۔ اللہ بھائ کو سلامت رکھے۔ وقت گذر جائے گا وقت کے فرعون بھی اللہ کے عذاب کا شکار ہوں گے۔ لیکن جنہوں نے قوم اور بابائے قوم سے دھوکا کیا کہ اس غداری کے اثرات قومی غلامی کی شکل میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ ان غداروں کے رویئے قوم کبھی نہیں بھولے گی کبھی نہیں۔

آج رہنے دو غریبوں کے لہو کا سودا
کل خریدوگے تو یہ اور بھی سستاہوگا۔

از: جاوید بشیر خانزادہ

#ہم_راہ_وفا_کے_سودائی

ایوان میں بھونکنے کی آوازیں آ رہی ہیں

**ایوان میں بھونکنے کی آوازیں آرہی ہیں**
**************************

طالب علمی کے زمانے میں ہمارے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ میرے اُن سے اچھے مراسم تھے۔ یہ یو نیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا
اک دفعہ میں انکے دفتر گیا۔ مجھ سے کہنے لگے:
“خاں صاحب ! آپکو اک مزے کی بات سناؤں؟”
جی سر ضرور !!

پچھلے ہفتے کی بات ہے میں اپنے دفتر می‍ں بیٹھا تھا کہ اچانک اک غیر معمولی نمبر سے مجھے کال آئی:

“پندرہ منٹ کے اندر اندر اپنی سراونڈگنز کی کلیئرنس دیں!”

ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ بکتر بند گاڑیاں گھوم کے میرے آفس کے اطراف میں آکر رکیں
سول وردی میں ملبوس حساس اداروں کے لوگ دفتر می‍ں داخل ہوئے

ایک آفیسر آگے بڑھا،

“امریکہ کی سفیر آئ ہیں انکے کتے کو پرابلم ہے اسکا علاج کر دیجئے”

تھوڑی دیر بعد اک گوری جن کے ساتھ انکا ایک نسلی کتا بھی تھا۔
کہنے لگیں :
“میرے کتے کے ساتھ کچھ عجیب و غریب مسئلہ ہو گیا ہے میرا کتا نافرمان ہوگیا ہے اسے میں پاس بلاتی ہوں یہ دور بھاگ جاتا ہے خدارا کچھ کریں یہ مجھے بہت عزیز ہے اسکی بے اعتنائی مجھ سے سہی نہیں جاتی۔”

میں نے کتے کو غور سے دیکھا۔ پندرہ منٹ جائزہ لینے کے بعد میں نے کہا :

“میڈم !! یہ کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں میں اسکا مشاہداتی معائنہ کر کے کوئی حل نکالتا ہوں”۔

اس نے بے دلی سے حامی بھرلی۔
سب چلے گئے۔

میں نے اپنے ملازم کو آواز دی

فیضو ! اسے بھینسوں کے باڑے میں باندھ کے آ۔۔۔
سن !!! اسے ہر آدھے گھنٹے کے بعد چھتر مار اور
ہر آدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالنا جب پانی پی لے تو پھر چھتر مار۔

میرا ملازم ان پڑھ آدمی تھا۔ ساری رات کتے کے ساتھ چھتر ٹریٹ منٹ کرتا رہا۔
جیسے ہی صبح ہوئی بہمراہ اپنے عملے کے امریکن سفیر زلف پریشاں لئے میرے آفس میں آ دھمکیں۔

Sir what about my pup ?

I said: “Hope your pup has missed you too”

ملازم کتے کو لے آیا۔
جونہی کتا کمرے کے دروازے پر پہنچا چھلانگ لگا کر گوری سفیر کی گود میں جا بیٹھا اور لگا دم ہلانے منہ چاٹنے۔
کتا مُڑ مڑ کے تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے تکتا رہا۔ اور
میں گردن ہلا ہلا کے مسکراتا رہا۔

سفیر نے پوچھا :
سر ! آپ نے اسکے ساتھ ایسا کیا کیا کہ یہ اچانک ہی سدھر گیا۔”
میں نے کہا:
“میرے مشاہداتی معائنے میں یہ بات سامنے آئی کہ ریشم و اطلس ، ایئر کنڈیشن کمرے اور گاڑیاں، پروٹوکول اور اعلی پائے کی خوراک کھا کھا کے یہ خود کو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا۔ بس اسکا یہ خناس اُتارنے کے لیے اسکو ذرا سائیکولوجیکل پلس فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی وہ دیدی۔ ناؤ ہی از اوکے”۔

Apart from the humour, Now read the first sentence again to understand the message

“ایوان میں بھونکنے کی آوازیں آ رہی ہیں”
یعنی ،
اپنے قائد کے کہنے پر جنہیں ہم منتخب کریں ، ہمارے وہی منتخب نمائندے ایوانوں میں جا کے اگر قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر، مفاد پرست، موقع پرست ، ضمیر فروش اور احسان فراموش ہو جائیں اور ایوانوں سے باہر آکر بھی اپنی قوم اور اسکے قائد پر بھونکنا شروع کر دیں تو پھر قوم پر لازم ہے کہ میرے پروفیسر صاحب والا طریقہ علاج اپنائیں یعنی “چھتر ٹریٹمنٹ”
تجربہ شرط ہے ، انشاءاللہ “قومی افاقہ” ہوگا۔
#BoycottElection2018
(ماخذ جاوید بشیر خانزادہ)

ہاں تو جناب ! آپ اصلی نسلی ہیں یا فارمی

**ہاں تو جناب آپ اصلی نسلی ہیں یا فارمی **
****************
غور طلب بات ہے کہ عربوں کو اونٹ کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لئے ان کی طبیعت میں نخوت ، غيرت اور سختی کا عنصر بہت پایا جاتا ہے۔
ترکوں کو گھوڑے کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لئے ان میں طاقت ، جراءت اور اکھڑ پن کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے.
انگریزوں کو خنزیر کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لئے ان میں فحاشی وغیرہ کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے .
حبشی افریقی بندر کھاتے ہیں اس لیے ان میں ناچ گانے کی طرف میلان زیادہ پایا جاتا ہے.
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“جس کو جس حیوان کے ساتھ انس ہوتا ہے اس کی طبیعت میں اس حیوان کی عادتیں غیر شعوری طور پر شامل ہو جاتی ہیں. اور جب وہ اس حیوان کا گوشت کھانے لگ جائے تو اس حیوان کے ساتھ مشابہت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔”
ہمارے شہر میں ہمارے ہاں فارمی مرغی کھانے کا رواج بن چکا ہے. چنانچہ ہم بھی مرغیوں کی طرح صبح و شام چوں چوں تو بہت کرتے ہیں لیکن ایک ایک کرکے ہمیں ﺫبح کردیا جاتا ہے۔ فارمی مرغی کا گوشت کھانے کی وجہ سے ہم میں سستی کاہلی کی، ایک جگہ ٹک کر بیٹھے رہنے کی ، سر جھکا کر چلنے کی اور پستی میں رہنے کی عادتیں پیدا ہوچکی ہیں.
تو پھر یہ آپکو ہی طے کرنا ہوگا کہ آپکو اصلی نسلی ہی رہنا یا پھر فارمی۔
اگر اصلی نسلی رہنا ہے تو پھر اپنے جد امجد کے قول کو پھر سے یاد کرنا ہوگا :
“شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے”
با عزت زندگی جینا ہے تو پھر “فلسفہء حقیقت پسندی اور عملیت پسندی” کو اپنانا ہی پڑے گا بقول شاعر :

عقابوں کے تسلًط پرفضائیں فخر کرتی ہیں
خودی کے رازدانوں پر دعائیں فخر کرتی ہیں
بطن سے جن کے پیدا ہوں شیروں جیسے بیٹے
وہ دھرتی سر اُٹھاتی ہے وہ مائیں فخر کرتی ہیں۔
(از : جاوید بشیر خانزادہ)

تم مرغی کیوں بن گئے مہاجرو

**تم مرغی کیوں بن گئے مہاجرو**
************************
سنا ہے عقاب کی اوسط عمر 70 سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس عمر تک پہنچنے کے لیئے اسے سخت مشکلات سے گزرنا ہو تا ہے۔جب اس کی عمر چالیس سال ہوتی ہے تو اس کے پنچے کند ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا، اسی طرح اس کی مظبوط چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے، اس کے پر جس سے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اڑان بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان سب مشکلات کے ہوتے ہوے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر 150 دن کی سخت ترین مشقت کے لیے تیار ہو جائے۔چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے ۔اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے۔کچھ دن بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے۔پھر چند دنوں میں اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اکھاڑ دیتا ہے۔اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے گزرنا ہوتا ہے۔ پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو اس طرح وہ تیس سال مزید زندہ رہ پاتا ہے۔
اس عقابی فطرت کو اک دوسرے زاویئے سے دیکھتے ہیں :

کہتے ہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لگے درخت پر ایک عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا جس میں اس کے دیئے ہوئے چار انڈے پڑے تھے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے ایک انڈا نیچے جا گرا جہاں ایک مرغی کا ٹھکانہ تھا۔ مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈا سمجھا اور سینے کیلئے اپنے نیچے رکھ لیا۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا منا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر پلا بڑا ہوا۔ ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔ اس کا بہت دل چاہا کہ کاش وہ بھی ایسے اڑ سکتا! جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں سے کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔ کہتے ہیں اس کے بعد اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے ایک لمبی عمر پائی اور مرغیوں کی طرح جیتا رہا اور مرغیوں کی طرح ہی مرا۔

منفی سوچوں کو دل میں بسا کر رہنا ان سوچوں کا غلام بن کر رہنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اگر آپ عقاب تھے اور آپ کے خواب آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے تھے تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نا دیجیئے کیونکہ انہوں نے تمہیں بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔ اپنے شخصی احترام کو بلند رکھنا اور اپنی نظروں کو اپنی منزل پر مرکوز رکھتے ہوئے پرعزم اور بلند حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا ہی تمہاری کامیابی کا راستہ ہوگا۔ جب معاملات آگے نا بڑھ پا رہے ہوں تو اپنی روزمرہ کی عادتوں سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی کامیابیوں کو آسان بناتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ :
إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

تم اپنی عقابی فطرت کے خلاف مرغی کیوں بن گئے مہاجرو۔؟؟؟؟؟ 👇

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
اب ماہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے
اب تو سب دشنہ و خنجر کی زبان بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبّت کے نصابوں والے
زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

بانیان پاکستان کی وفا پرست اولادو

**بانیان پاکستان کی وفاپرست اولادو**

*****************************
اگر آپ اپنے آپکو محب وطن پاکستانی ثابت کرنا چاہتے ہو تو
“زندہ باد بولو اور سارا ملک کھا جائو”
یہی آپکی پاکستانیت کی واحد زندہ دلیل ہے۔
لیکن اگر آپ نے پاکستان کے کرپٹ زمینی خدائوں کی جانب سے رشوت کے طور پر بھیجے گئے نوٹوں سے بھرے بریف کیس واپس کرکے اپنے اسلاف کی حریت پسندی کو دوام بخشا تو پھر غداری کا طوق آپکے گلے میں ڈال کر ملکی عدالت ، صحافت اور سیاست میں آپ پر وہ گند اچھالا جائے گا کہ بس ” الحفیظ و الآماں”۔
کیا کریں جناب ! ہم اس قوم کے بیٹے ہیں کہ اگر زندانوں میں حکمرانوں کے جبر کے آگے ہمارے حوصلے کمزور پڑنے لگیں تو “بی اماں” کی آواز کانوں میں گونجتی ہے ۔ کہ
“اگر تم نے اپنے ضمیر کا سودا کیا تو خدا کی قسم میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی”
اب “بی اماں” کو کون بتائے کہ کہ وہاں گورے سامراجیوں کی حکومت تھی یہاں کالے سامراجیوں کی۔ یہاں جو جتنا بڑا بد عنوان ہے اتنا ہی بڑا معزز ہے۔ جو جتنا بڑا قاتل ، بدمعاش ، اٹھائیگیرا پیداگیر اور ضمیر فروش ہوگا وہ اتنا ہی بڑا سیاست دان۔
کیا کریں جناب !
وہاں “بی اماں” کے حریت پسند جوہر برادران تھے یہاں “آپا بی” خورشید بیگم کے جراءت پسند مرد راست ہیں۔ وہ مرد حریت کہلائے یہ بابائے مہاجر قوم ۔ نہ انہوں نے اشرافیہ کے ہاتھوں بکنا سیکھا نہ انہوں نے مقتدر حلقوں کے آگے جھکنا سیکھا۔
کیا کریں جناب !
ہم ایسے ہی حریت پسند لوگوں کے پیرو کار ہیں ۔ ہر الزام آپ ہم پر لگا سکتے ہیں مگر اپنے وطن کا پائ پیسہ لوٹنے کا الزام نہیں لگا سکتے۔
آج پنامہ کیس سے دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائیوں کا سبب بننے والے سیاست دان ہوں ، جیوڈشری ہو جج ہوں جرنل ہوں یا جرنلسٹ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے لئے باعث فخر بات ہے کہ میرے اسلاف کے بنائے ہوئے مقدس وطن میں لوٹ مار کر کے کالا دھن بیرون ملک بھیج کر ملک کو کنگال کرنے والوں میں نا ہی میری قوم کا کوئ فرد شامل ہے نا ہی بابائے مہاجر قوم کا نام اس میں شامل ہے اور نہ ہی مہاجر تحریک کا من حیث التحریک کوئ کردار ہے ۔ شکر ہے بابائے مہاجر کا کہ جس نے ملک پر مسلط جاگیر دار قبائلی اشرافیہ سول اور فوجی افسر شاہی پر مبنی گندے نظام کی غلاظت سے مہاجر قوم کو بچائے رکھا۔
تو پھر آئو دعا کریں :

#دعا

آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی ’بت کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِاِمروز میں شیرنئی فردا بھر دے

وہ جنہیں تابِ گراںباریء اِیّام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے

جن کی آنکھوں کو ’رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منّور کر دے

جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
’ان کی نظروں پہ کوئی راہ ’اجاگر کر دے

جن کا دیں پیرویء کِذب و ریا ہے ’ان کو
ہمتِ کفر ملے،’جرّاتِ تحقیق ملے

جِن کے سر ’منتظرِ تیغِ جفا ہیں ’ان کو
دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

عشق کا سرِنہاں، جانِ تپاں ہے جس کو
آج اقرار کریں اور تپش مِٹ جائے

حرفِ حق دِل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اِظہار کریں اور خلش مِٹ جائے

(فیض احمد فیض)
#Mahajir #Babandoned.e.Mahajir #AltafHussain #UrbanSindh

دو ہزار اٹھارہ مہاجر قومی فتح کا سال

**دو ہزار اٹھارہ مہاجر قومی فتح کا سال**
**********************

تحریر ؛ جاوید بشیر خانزادہ
جب اسکی قوم کے نوجوانوں کو انکے شناختی کارڈ کی بنیاد پر شناخت کر کے بسوں سے اتار کر ان پر غیر انسانی تشدد اور اور انہیں برہنہ کرکے ان سے بد فعلی پر مبنی وڈیوز بنا کر یو ٹیوب پر ڈالی جارہی تھیں جب ان مظلوم نوجوانوں کے جسموں کے ٹکڑے کر کے شہر و مضافات میں مختلف جگہوں پھینکے جا رہے تھے۔ جب اسکی قوم کے نوجوانوں کو ماورائے عدالت سفاکی سے قتل کیا جا رہا تھا۔ اور انکی لاشوں کو جھاڑیوں اور سنسان شاہراہوں پر پھینکا جا رہا تھا۔ اسکی قوم کے ڈاکٹرز انجینیرز پروفیسرز اور علماء کرام کی لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی تھی ۔ تب وہ شخص اس غیر انسانی غیر اسلامی غیر آئینی اور غیر قانونی ظلم و بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا ۔ تو اسکی آواز کو دبا دیا گیا۔ جب اس نے اپنے منتخب کردہ پارلیمانی نمائندوں کو اس نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے پر زور دیا تو وہ شخص اور اسکی اپنی قوم “سکتے” میں آگئی کہ اسکے اپنے منتخب نمائندے ناصرف اس سے بلکہ اپنی پوری قوم سے بنام لا تعلقی غداری کر گئے۔ وہ شخص چیختا رہا روتا رہا اور اسکی قوم ظلم و استحصال کی چکی میں پستی رہی۔ جب اسکی آواز کو ملک کے ہر فورم پر بین کر دیا گیا تو اس نے اپنی قوم پر ہونے والے ہر ظلم کے خلاف دستیاب بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھانی شروع کردی۔ جس جدوجہد کا آغاز اس نے چالیس سال قبل کیا وہ اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے ملکی میڈیا پر آکر گواہی دی کہ ہاں ہم نے اسے خریدنے کی کوشش کی مگر وہ بکا نہیں ہم نے اسکے بھائی اور بھتیجے کو گرفتار کرکے اذیت ناک تشدد کیا اسکو اسکے بھائی اور بھتیجے کی چیخیں تک سنوائیں حتی کہ انہیں سفاکی سے قتل کرکے دردناک تصاویر کھینچ کر اس تک پہنچائیں مگر وہ ڈرا نہیں وہ جھکا نہیں۔
مگر اسکے اپنے منتخب نمائیندے بیانوے میں بکے پچانوے میں بکے ستانوے میں بکے اور اب تو حد ہی کر دی کہ سارے کے سارے 2017 میں بکے۔ وہ کہتا رہا استعفے دے دو روپوش ہوجائو کہیں بھی بھاگ جائو۔ مگر جنہیں آسائشوں اور عیاشیوں کی لت پڑ گئی ہو تو پھر ان کے لئے قوم کی کیا اوقات اور قائد کی کہا حیثیت۔ انہیں قائد کے نظریئے اور قومی بقا اور سلامتی سے زیادہ اپنا مفاد اپنی عیاشیاں اور اپنا پروٹوکول عزیز تھا۔ آج وہ شخص اپنے منتخب کردہ نمائندوں پر لعنت بھیج چکا کیونکہ یہ سب بے ضمیر ہوچکے پیدا گیر ہوچکے انتہائی عیار و مکار قوم فروش بن چکے ۔ اس شخص کو تو قوم نے اسکی قومی خدمات و ایثار و قربانی کی لازوال جدوجہد پر قائد تحریک سے بابائے مہاجر قوم بنادیا۔ اور ان نام نہاد نمائندوں کو راندہ درگاہ کر دیا قوم نے انکو ایسے کتے بنادیا ہے جو اب نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
آج مجھے اک پرانی کہانی یاد آئی ؛

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺟﻨﮕﻞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺘﺮ کا بچہ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﮓ ﭘﻨﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﮐﺎﺟﻮ ، ﮐﺸﻤﺶ , ﺑﺎﺩﺍﻡ ﮐﮭﻼﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﺐ ﺗﯿﺘﺮ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﭘﻨﺠﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻟﯿﮑﺮﺟﻨﮕﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻝ ﺑﭽﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺘﺮ ﮐﻮ ﻭﮨﯿﮟ ﭘﻨﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺟﮭﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﭗ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺘﺮ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﯾﮯ ﮐﮧ ” ﺑﻮﻝ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻝ ” ﺗﯿﺘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﭼﻼﺗﺎ ﮨﮯ .
ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺗﯿﺘﺮ ( ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍپنی ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ , ﭼﻠﻮ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮐﮭﻨﭽﮯ ﭼﻠﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﭽﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﮑﺎﺭﯼ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﺗﯿﺘﺮ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺗﯿﺘﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﻻﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﺗﯿﺘﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮑﮍﮮ ﮔﺌﮯ ﺳﺐ ﺗﯿﺘﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﭨﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﺗﯿﺘﺮ ﺍﻑ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ , ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎﺟﻮ , ﮐﺸﻤﺶ , ﺑﺎﺩﺍﻡ ﺟﻮ ﻣﻞ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ۔

ﮐﻢ ﻭﺑﯿﺶ ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺁﺝ ﮐل مہاجروں ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ .
ﺷﮑﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺗﯿﺘﺮ ﭘﺎﻝ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻗﻮﻡ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺟﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﭩﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ اف ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﺣﺼﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ جو ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

کہانی اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ مہاجر قوم کو بابائے قوم نے اتنا شعور دے دیا ہے کہ وہ شکاری کو بھی پہنچانتے ہیں اور شکار کو بھی۔ بہت کاجو کشمش بادام کھلا دیئے اور قوم کے چند بے ضمیر پیدا گیروں نے خوب کھا بھی لئے۔ اب وقت حساب سر پر ہے۔ ہر ظلم کا حساب ہونا ہے اور وہ بھی غلیل سے ہیں دلیل سے ۔ وہ ہونے جا رہا ہے جو تمہاری عقل سے ماورا ہے۔
اب شکاری یہ جان لیں کہ اس شخص نے اپنی قوم کو شکرا بنا دیا ہے۔ ایسا شکرا جو اپنی قوم کی آن اور قائد کی شان کی خاطر کچھ بھی کر سکتا۔ بیانوے ہو پچانوے ہو ستانوے ہو یا 2017 اب گذر چکے۔ یہ 2018 ہے ۔ مہاجر قومی فتح کا سال۔

#آسماں_پر_ہے_خدا_اور_زمیں_پہ_ہم